
جسٹس یشونت ورما کا ردعمل: میرے عملے نے کوئی نقد رقم نہیں دیکھی، الزام لگانے کی سازش
دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس یشونت ورمانے 14-15 مارچ کی رات اپنے رہائش گاہ پر آگ لگنے کے بعد کی جانے والی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے عملے کو جب وہ آگ بجھانے کے بعد جائے وقوعہ پر گئے، وہاں کوئی جلی ہوئی کرنسی یا نقد رقم کے ٹکڑے نہیں ملے۔
جسٹس ورما نے دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی کے اپادھیائے کے نام اپنے جواب میں واضح کیا کہ جب آگ لگی، تو ان کی بیٹی اور ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے فائر سروس کو اطلاع دی تھی اور ان کی کالز ریکارڈ کی گئی ہوں گی۔ آگ بجھانے کے دوران، تمام عملے اور ان کے اہل خانہ کو حفاظتی وجوہات کی بناء پر جائے وقوعہ سے ہٹنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ آگ بجھانے کے بعد جب وہ واپس آئے تو وہاں کوئی نقد رقم یا کرنسی موجود نہیں تھی۔
جسٹس ورما نے مزید کہا کہ نہ تو ان کے عملے کو وہاں کسی نقد رقم کے ٹکڑے دکھائے گئے، اور نہ ہی کسی کرنسی کے “نکالے جانے” کا کوئی ثبوت ملا۔ انہوں نے بتایا کہ ملبہ صاف کیا گیا اور جو چیزیں بچائی جا سکتی تھیں، انہیں محفوظ کر لیا گیا۔ یہ چیزیں اب بھی ان کے گھر میں موجود ہیں اور انہیں ایک حصے میں علیحدہ رکھا گیا ہے۔
واقعہ: جسٹس یشونت ورما کے گھر پر آگ لگنا
یہ واقعہ اس وقت شروع ہوا جب 14 مارچ کی رات کو جسٹس یشونت ورما کے گھر پر آگ لگ گئی۔ آگ اتنی شدید تھی کہ فائر سروس کو فوراً اطلاع دی گئی۔ جسٹس ورما نے خود اپنے جواب میں کہا کہ ان کی بیٹی اور پرائیویٹ سیکرٹری نے آگ کی اطلاع دی تھی اور ان کی کالز ریکارڈ کی گئی ہوں گی۔ آگ بجھانے کے دوران، تمام عملے اور اہل خانہ کو حفاظتی وجوہات کی بنا پر جائے وقوعہ سے ہٹانے کا عمل کیا گیا۔ جب آگ بجھانے کے بعد عملہ واپس آیا تو انہوں نے وہاں کوئی نقد رقم یا کرنسی کی باقیات نہیں دیکھی۔
جسٹس ورما کا دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو خط
جسٹس ورما نے دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو اپنے خط میں اس بات کی وضاحت کی کہ ان کے عملے نے بعد میں جائے وقوعہ پر جا کر کوئی نقد رقم یا کرنسی نہیں دیکھی۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ “میرے عملے کو وہاں پر کوئی نقد رقم یا کرنسی نہیں دکھائی گئی، جو کہ ممکنہ طور پر وہاں موجود ہو سکتی تھی۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “میں نے اپنے عملے سے خود تحقیقات کی ہیں اور وہ سب اس بات سے متفق ہیں کہ وہاں سے کوئی کرنسی نہیں نکالی گئی تھی۔” جسٹس ورما نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ جو کچھ صاف کیا گیا وہ ملبہ تھا اور جو چیزیں بچائی جا سکتی تھیں وہ محفوظ کر لی گئی تھیں۔ یہ چیزیں اب بھی ان کے گھر میں موجود ہیں اور انہیں ایک حصے میں علیحدہ رکھا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر ماریہ طارق کا طاقتور ایکشن: تین اجلاس، تین بڑے فیصلے، عوامی سہولتوں کی فراہمی کا نیا دور
الزامات: جلی ہوئی کرنسی کا ملنا اور نکالنا
یہ الزامات اس وقت شروع ہوئے جب میڈیا میں خبریں آئیں کہ جسٹس ورما کے گھر میں آگ لگنے کے دوران جلی ہوئی کرنسی کی گٹھریاں نکالی گئیں۔ ان خبروں میں یہ دعوے کیے گئے کہ صرف کرنسی کو ہی نکالا گیا تھا اور یہ کسی غیر قانونی سرگرمی کا حصہ تھا۔ میڈیا میں ان الزامات کے پھیلنے کے بعد، عوام میں یہ سوالات اٹھنے لگے کہ یہ کرنسی کہاں سے آئی اور اس کا تعلق کس سے تھا۔
جسٹس ورما کا ردعمل: نقد رقم کے ملنے کی تردید
جسٹس ورما نے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے عملے کو آگ بجھانے کے بعد وہاں کوئی نقد رقم نہیں ملی۔ انہوں نے کہا کہ نہ تو ان کے عملے کو کوئی کرنسی دکھائی گئی، اور نہ ہی اس میں سے کسی قسم کی “نکالی” گئی کرنسی کا کوئی ثبوت ملا۔ جسٹس ورما نے اس بات پر زور دیا کہ جو کچھ بھی وہاں صاف کیا گیا وہ ملبہ تھا اور جو چیزیں بچائی جا سکتی تھیں انہیں محفوظ کر لیا گیا تھا۔
عملے اور فائر فائٹرز کا کردار
آگ لگنے کے دوران جسٹس ورما کے عملے اور دیگر افراد کا کردار اہم تھا۔ جسٹس ورما نے اپنی بیٹی اور پرائیویٹ سیکرٹری کا ذکر کیا جنہوں نے سب سے پہلے فائر سروس کو اطلاع دی۔ اس کے بعد فائر فائٹرز نے موقع پر پہنچ کر آگ پر قابو پایا اور اس دوران تمام عملے اور اہل خانہ کو جائے وقوعہ سے ہٹنے کو کہا تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ آگ بجھانے کے بعد عملے کو واپس آنے دیا گیا لیکن انہوں نے وہاں کوئی نقد رقم یا کرنسی کی باقیات نہیں دیکھی۔
پختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگرد حملوں کی مذمت: انجینئر ندیم ممتاز قریشی کی دہشتگردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی اپیل
میڈیا اور عوام کا ردعمل
میڈیا نے اس واقعے کو بڑی شدت سے اٹھایا اور ان الزامات کو پھیلایا کہ جلی ہوئی کرنسی کو نکالا گیا تھا۔ یہ خبریں جلد ہی عوام میں پھیل گئیں اور اس پر مختلف تبصرے شروع ہو گئے۔ میڈیا نے ان الزامات کو بڑے پیمانے پر پھیلایا، جس سے عوام میں بے چینی اور سوالات کا آغاز ہوا۔
جسٹس ورما نے ان الزامات کے جواب میں اپنا موقف پیش کیا اور میڈیا کے ان دعوؤں کو مسترد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان الزامات کا کوئی حقیقت سے تعلق نہیں ہے اور انہیں محض ایک سازش کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
عدلیہ کی ساکھ پر اثرات
عدلیہ کسی بھی جمہوری معاشرت کا ستون ہوتا ہے، اور ججز سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اعلیٰ معیار کی ساکھ کے حامل ہوں۔ اگر کوئی جج اس طرح کے الزامات کا شکار ہوتا ہے تو یہ پورے عدالتی نظام پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ جسٹس ورما نے ان الزامات کا جواب دے کر نہ صرف اپنی ذاتی ساکھ کو بچانے کی کوشش کی بلکہ عدلیہ کی ساکھ کو بھی محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔
انہوں نے اپنے جواب میں اس بات پر زور دیا کہ عدلیہ کے ارکان کے خلاف لگائے گئے الزامات کو سچ ثابت کرنے کے لیے مناسب تحقیقات کی جانی چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد عدلیہ پر برقرار رہے۔
پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2025ء:یونین کونسلوں کا خاتمہ، ضلعی اتھارٹی کا جرات مندانہ اقدام اور سخت ترین جرمانے!
سازش کا تذکرہ اور تحقیقات کی ضرورت
جسٹس ورما نے اپنے جواب میں اس بات کا بھی اشارہ دیا کہ یہ الزامات ایک سازش کا حصہ ہو سکتے ہیں اور ان کا مقصد انہیں بدنام کرنا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ان الزامات کی حقیقت ثابت نہ ہو جائے، تب تک انہیں سازش کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
ان الزامات کی تحقیقات کے لیے شفاف اور مکمل انکوائری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے نہ صرف ان کی ساکھ بحال ہو گی بلکہ عدلیہ کے اندر بھی شفافیت اور انصاف کا عمل قائم رہے گا۔
عوامی اعتماد اور عدلیہ کا تحفظ
یہ واقعہ عدلیہ کے اندر عوامی اعتماد کے حوالے سے ایک سنگین سوال اٹھاتا ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ کسی بھی جج یا عدلیہ کے رکن کے خلاف لگائے گئے الزامات کی فوری طور پر تحقیقات کی جانی چاہیے تاکہ کسی بھی قسم کی غلط فہمی یا بدنامی سے بچا جا سکے۔ جسٹس ورما کے ردعمل نے اس بات کو واضح کیا کہ انہیں بے بنیاد الزامات سے بچانے کے لیے انصاف کا عمل اہم ہے۔
جسٹس ورما کا یہ بیان اس بات کا غماز ہے کہ عدلیہ کی ساکھ کو متاثر کرنے والے الزامات پر فوری اور شفاف تحقیقات کی جانی چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد عدلیہ پر برقرار رہے اور اس کے فیصلے انصاف کے اصولوں کے مطابق ہوں۔