
پاکستانی ہوٹلوں کے کھانے تیل سے بھرپور ہوتے ہیں۔
پاکپتن(بیوروچیف)پاکستانی کھانے اپنی لذت، خوشبو اور منفرد ذائقے کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان میں تیل، گھی اور مصالحوں کا حد سے زیادہ استعمال ایک عام روایت بن چکا ہے جو نہ صرف صحت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ معاشی طور پر بھی بوجھ بنتا جا رہا ہے ان خیالات کا اظہار سیکرٹری جنرل پاکستان سوشل ایسوسی ایشن حکیم لطف اللہ نے نورپور کے حکماء کی موجودگی میں گفتگو کرتے ہوئے کیا مزید انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب پورے پاکستان میں ایک ہی کارڈیو سینٹر ہوتا تھا، لیکن آج ہر بڑے شہر میں دل کے امراض کے اسپتال کھلے نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہماری غیر متوازن خوراک اور بالخصوص کھانوں میں غیر ضروری طور پر زیادہ تیل کا استعمال ہے۔ اگر ہم اپنی غذا میں تیل اور گھی کا استعمال کم کر دیں تو نہ صرف ہم صحت مند رہیں گے بلکہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان ہونے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ہمارے ہاں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ سالن میں اتنا زیادہ تیل ڈالا جاتا ہے کہ وہ پلیٹ میں اوپر تیرتا نظر آتا ہے۔ یہی نہیں، تندوری نان، پراٹھے، اور فرائیڈ آئٹمز میں بھی تیل کی مقدار خطرناک حد تک زیادہ ہوتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اگر ہم کسی بھارتی یا کسی اور ملک کے ریسٹورنٹ میں جائیں تو وہاں کھانے میں تیل کی مقدار بہت کم ہوتی ہے، لیکن پاکستانی ہوٹلوں کے کھانے تیل سے بھرپور ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مغربی ممالک میں کھانے میں چکنائی اور نمک کی مقدار انتہائی محدود رکھی جاتی ہے، جس کے باعث وہاں لوگ نسبتاً صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔ ہمارے امریکی یا یورپی دوست اکثر حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ “آپ لوگ کھانے میں اتنا زیادہ تیل کیوں ڈالتے ہو؟” اور واقعی، یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔اگر ہم اپنی روزمرہ کی خوراک میں تیل اور گھی کا استعمال محدود کر لیں تو نہ صرف ہم اپنی جیب پر بوجھ کم کر سکتے ہیں بلکہ اپنی صحت کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، پانچ سے چھ افراد کے لیے تیار کیے جانے والے سالن میں ایک کھانے کا چمچ گھی یا تیل کافی ہوتا ہے۔ پیاز اور لہسن کو بھوننے کے لیے ضرورت سے زیادہ تیل ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح، سبزیوں اور گوشت کو کم تیل میں بھی مزیدار طریقے سے پکایا جا سکتا ہے۔ آہستہ آہستہ تیل کی مقدار کم کرنے سے ذائقہ زیادہ متاثر نہیں ہوتا اور جسم بھی اس تبدیلی کو قبول کر لیتا ہے۔ سبزیوں کو بھوننے کے بجائے، انہیں ہلکا سا اسٹیم یا گرل کرنا زیادہ بہتر ہے۔ نان اور روٹی پر گھی یا مکھن لگانے کی عادت چھوڑ کر اور پراٹھے کو مکمل فرائی کرنے کے بجائے ہلکے سے برش کر کے کھانے سے بھی چکنائی کی مقدار کم کی جا سکتی ہے۔صرف تیل ہی نہیں، ہمارے کھانوں میں نمک اور مصالحے بھی ضرورت سے زیادہ ہوتے ہیں۔ زیادہ نمک ہائی بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے، جبکہ تیز مرچ مصالحے معدے کی جلن اور دیگر مسائل پیدا کرتے ہیں۔ اگر ہم آہستہ آہستہ کم نمک اور کم مصالحے استعمال کرنا شروع کر دیں تو کچھ ہی دنوں میں ہمارے ذائقے کی حس اس کی عادی ہو جائے گی، اور ہمیں زیادہ مصالحے اور نمک کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی۔ آج کے دور میں جب ورجن اولیو آئل، ایووکاڈو آئل اور دیسی گھی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، لوگ شکایت کرتے ہیں کہ وہ انہیں افورڈ نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر ہم تیل اور گھی کا استعمال کم کر دیں تو یہی مہنگے آئل بھی لمبے عرصے تک چل سکتے ہیں۔ ایک کلو گھی یا آئل جو پہلے دو ہفتے میں ختم ہو جاتا تھا، وہی دو ماہ تک چل سکتا ہے۔یہ عادت نہ صرف ہمیں صحت مند رکھے گی بلکہ ہماری جیب پر بھی بوجھ کم کرے گی۔ اگر ہم اپنی زندگی میں یہ چھوٹی سی تبدیلی لے آئیں تو نہ صرف ہم خود بیماریوں سے بچیں گے بلکہ اپنی اگلی نسل کو بھی بہتر عادات منتقل کریں گے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم تیل، نمک اور مصالحوں کے بے جا استعمال کو کم کریں اور ایک صحت مند اور خوشحال زندگی کی طرف قدم بڑھائیں۔